سمندر سے نایاب موتی اور جواھر نکالنے کے لیئے پہلے تیراکی کا لباس پہننا پڑتا ہے. پھر سمندر میں غوطہ زن ہونا پڑتا ہے. پھر مصنوعی آکسیجن کی مدد سے قیمتی جواھر کی تلاش میں اس سمندر کی وحشت بھری گہرائی میں جا کر تلاش بسیار کرنے کے بعد اس کی کاوش رنگ لاتی ہے اور پھر .اس کو دنیوی ہیرا موتی ملتا ہے :بلکل اسی طرح قرآن میں موجود انمول موتی اور ہیرے وجوھرات تب ملتے ہیں جب انسان ترجمے کا لباس پہن کر قرآن کے سمندر نایاب میں غوطہ زن ہوتا ہے اور تفسیر کی مدد سے اس کی گہرائی میں جاتا ہے تو اسے اس میں سے .حقیقت کے موتی, سائنس کے ہیرے اور دین و دنیا کی کامیابی کے جواھر ملتے ہیں ...مگر ہمارا حال بد یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھتے نہیں مگر قارئ القرآن ہیں ..یا ہم قرآن کو پڑھتے تو ہیں مگر سمجھتے نہیں پھر بھی ہم مفسر قرآن ہیں ...یا پھر ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھ تو لیتے ہیں مگر سلف کے منھج کو چوڑ دیتے ہیں ...پھر خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ...اس گمراہی کے باوجود بھی ہم اپنے آپ کو شیخ القرآن کہلواتے ہیں ناقد مکمدنسی
Post a Comment