کسی بھی مسئلے میں اور کسی بھی معاملے کا فیصلہ کرتے ہوئے انسان کو دل سے نہیں سوچنا چاہیے بلکہ دماغ سے سوچنا چاہیے۔۔۔؟

Faisla kab aur kese kerna chahiye 

کسی بھی مسئلے میں اور کسی بھی معاملے کا فیصلہ کرتے ہوئے انسان کو دل سے نہیں سوچنا چاہیے بلکہ دماغ سے سوچنا چاہیے۔۔۔

 
کسی بھی مسئلے میں اور کسی بھی معاملے کا فیصلہ کرتے ہوئے انسان کو دل سے نہیں سوچنا چاہیے بلکہ دماغ سے سوچنا چاہیے۔۔۔
دل سے سوچنے کا مطلب کہ جذبات اور احساسات کو سامنے رکھ کر سوچنا۔۔۔
کیونکہ انسان جب دل سے سوچتا ہے تو محبت یا نفرت سامنے آ جاتی ہے۔۔۔
انسان جب دل سے سوچتا ہے تو ضد آڑے آجاتی ہے۔۔۔
انسان جب دل سے سوچتا ہے تو عصبیت سامنے آسکتی ہے۔۔۔
انسان جب دل سے سوچتا ہے تو احساسات اور تمام جذبات اس کو صحیح اور مبنی بر عدل فیصلہ کرنے سے روکتے ہیں۔۔۔۔
اگر انسان دماغ سے فیصلہ کرے گا تو فیصلہ کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔۔۔
اور دماغ سے فیصلہ کرنے کا مطلب کہ انسان دلائل کو مد نظر رکھے اور لوجک کے سہارے پر فیصلہ کرے۔۔۔
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔۔۔
خود ہی ملاحظہ فرمائیں:
عن ام سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما انا بشر وإنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض فاقضي له على نحو ما اسمع منه، فمن قضيت له من حق اخيه بشيء فلا ياخذ منه شيئا، فإنما اقطع له قطعة من النار".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں انسان ہی ہوں۱؎، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہو سکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں“
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المظالم 16 (2458)، الشھادات 27 (2680)، الحیل 10 (6967)، الأحکام 20 (7169)، 29 (7181)، 31 (7185)، صحیح مسلم/الأقضیة 3 (1713)، سنن الترمذی/الأحکام 11 (1339)، سنن النسائی/ القضاة 12(5403)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 5 (2317)، (تحفة الأشراف: 18261)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 1 (1)، مسند احمد (6/307،320) (صحیح)»
اس واقعہ سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ قاضی یا منصف اور ہر شخص اپنے معاملات کے فیصلے دلائل اور لوجک کو سامنے رکھ کر کریں ناکہ اپنے فیصلے کی بنیاد جذبات پر رکھیں۔۔۔
بہت سے دلائل ہیں جن میں ہے کہ ایک طرف مسلمان ہوتا تھا اور ایک طرف کافر قاضی اس کے حق میں فیصلہ صادر کرتا جو حق دار ہوتا تھا۔۔۔ اور فیصلہ کرتے ہوئے کبھی یہ نہیں سوچتا تھا کہ ایک طرف مسلمان ہے اور ایک طرف کافر۔۔۔

ناقد مکمدنسی